Fatwa 2

Fatwa 1
April 4, 2020
Fatwa 3
April 4, 2020

Fatwa 2

بسم اللہ الرحمن الرحیم
ٖکیافرماتے ہیں علمائے اسلام ومفتیان عظام مسئلہ ذیل کے بارے میں!
مسلم سلاطین ونوابین کی تعمیر کردہ مساجد میں یونہی مدارس ومزارات کا اہتمام وسجادگی وامامتیں خاندانی وراثتاً چلی آرہی ہے۔زید کا کہنا ہے کہ اگر اہل ہے تو جائز ہے اور اگر نااہل ہے تو جائز نہیں ہے اگرچہ بانی وواقف کا خاص خاندان ہی کیوں نہ ہو کیونکہ مذہبی امور میں وراثت جاری کرنا درست نہیں۔کیا زید کا قول درست ہے قرآن وحدیث کی روشنی میں جواب عنایت فرمائیں۔
المستفتی محب علی نعیمی رامپوری تنظیم عوام اھل سنت نانکار،رامپور ضلع مرآداباد یوپی
نوٹ رجسٹرڈ ڈاک موصول شدہ بتاریخ ۴مارچ ۰۲۰۲)۔

الجواب!
قرآن کریم میں ہے والذین ھم لامٰنٰتھم وعھدھم راعون(المومنون آیت ۸) اوروہ جو اپنی امانتوں اوراپنے عہد کی رعایت کرتے ہیں (خواہ وہ امانتیں اللہ کی ہوں یا خلق کی اور اسی طرح عہد خدا کے ساتھ ہوں یامخلوق کے ساتھ سب کی وفا لازم ہے)۔یاایھا الذین اٰمنوا اوفوا بالعقود (المائدہ آیت ۱) اے ایمان والو اپنے قول پورے کرو(ایک قول کے مطابق مومنین کے باہمی معاہدے مراد ہیں)۔اور ہمارے آقا حضوراکرم ﷺ کا ارشاد گرامی ہے اذ اسد الامر الی غیر اھلہ فانتظر الساعۃیعنی جب ذمہ داریاں نااہل کو سونپ دی جائیں تو پھر قیامت کا انتظار کرو۔۔
بے شک سب سے زیادہ امامت کا مستحق وہ شخص ہے جو نماز وطہارت کے احکام سب سے زیادہ جانتا ہو۔اس کے بعد وہ شخص ہے جو تجوید کا زیادہ علم رکھتا ہو۔پھر وہ جو زیادہ پرہیزگا رہو،پھر وہ جس کی عمر زیادہ ہوپھر وہ جس کو جماعت المسلمین منتخب کرے پھر جس کو اکثریت زیادہ پسند کرے۔المختصرہر سنی صحیح العقیدہ،صحیح الطہارت اورصحیح القراء ۃ غیر فاسق معلن جس میں کوئی بات ایسی نہ ہو کہ لوگوں کے لئے نفرت کا باعث ہواور جماعت کے لئے قلت کا سبب ہواس کے پیچھے بلاکراہت نماز جائز ہے خواہ وہ وراثتاً امامت کررہا ہویا لوگوں نے اسے منتخب کیاہو۔بادشاہ اسلام،حکام المسلمین،علمائے دین یا عامۃ المسلمین نے جس کو کسی مسجد کا امام بنایا ہے ظاہر ہے کہ وہ مستحقِ امامت تھا جبھی تو بنایا تو بے شک وہ امامت کرے گا۔ درگاہوں اور دینی مدرسوں میں جس کو بھی انتظامی امور کی ذمہ داری دی گئی اگر وہ اہل ہے تو وہی اس کا حقدار ہے اسی طرح شاہی مساجد اور نواب وراجاؤں کی مساجد اور درگاہوں کی مساجد میں اگر کسی کو سند امامت حاصل ہے کہ اس کے بعد اس کی اولادہی مذکورہ مسجد میں نماز پڑھائے گی تو بلاشہ وہ سند امامت موروثی معتبر مانی جائے گی دوسروں کو وہاں امامت کرنے کا حق حاصل نہ ہوگا اسی طرح درگاہوں کی مجاوری بھی ہے کہ مجاوری کی خدمت مجاورین کی وفات کے بعد ان کی اولاد کو ملے گی۔اس خدمت کے لئے انہیں جائداد و جاگیریں دی گئی ہیں اور ان سے عہد لیا گیا ہے کہ وہ اپنے منصب کے ساتھ انصاف کریں گے اور اخلاص کے ساتھ خدمت کریں گے۔ہاں وہ اس لائق نہ رہے یا اہلیت سے محروم ہوگئے اوراپنی ذمہ داری نبھانے میں کوتاہی سے کام لیا توبے شک اب وہ اُس منصب کے مستحق نہ رہے لہٰذ ا پہلے ان کی اصلاح کی جائے تاکہ فساد نہ ہوورنہ بصورت دیگر انہیں قانونی چارہ جوئی کے ذریعے ہٹایا جائے۔مالی امانت ہو کہ نماز کی امامت،درگاہوں کی مجاوری و سجادگی ہو کہ اوقافی اداروں کی خدمت اسی طرح دنیوی معاملات ہوں کہ تجارات
غرض وراثت کا تعلق حقوق اللہ سے ہو کہ حقوق العباد سے سب میں امانت ودیانت اور حقوق کی ادائیگی میں حسنِ نیت اور اہلیت وصلاحیت شرط ہے۔ خلفائے راشدین کی خلافت وامامت صرف من جانبِ خداو رسول ﷺ ہی نہیں تھی بلکہ وہ نفوس قدسیہ وذواتِ ارفع صفات وہبی وکسبی، ظاہری وباطنی اور حسبی ونسبی جملہ فضائل وکمالات سے مزین ہونے کے ساتھ ساتھ مسلمانوں کی مکمل رہنمائی کرنے اور ان کے جملہ دینی ودنیوی امور کو سنبھالنے، نبھانے اور باحسن الوجوہ انہیں انجام دینے کی سب سے زیادہ صلاحیت اوربھر پوراہلیت رکھتے تھے۔اس لئے وہ بیک وقت مسجد میں ایک عظیم امام تھے تو درسگاہ نبوی کے ایک کامیاب استاد بھی، مسند خلافت پر ایک عدل پرور خلیفہ تھے تو میدان کارزار میں مجاہد وغازی بھی اورعام رعایا کے خیر خواہ تھے تو بیت المال کے امین ومحافظ بھی۔ہندوستان میں بے شمار اوقافی املاک میں خرد برد ہوا ہے۔ان املا ک پراکثر غاصب وسارق قابض ہیں۔اسی طرح ماضی میں سلاطینِ ہنداور علاقے کے نواب وراجہ کسی ایک فرد یا خاندان کو کسی خاص دینی،قومی وملکی خدمات پر مامور کرکے جاگیریں وزمینیں دیا کرتے تھے آج ان شاہی و سرکاری جاگیروں کو لوگوں نے اپنی ذاتی پراپرٹی کے طور پر خریدنا بیچنا اور کھانا کمانا شروع کردیا ہے۔ اب جہاں اِن مسلم قومی املاک واراضی کو بچانا ضروری ہے کہ وہ پوری قوم کی تعمیر وترقی کے کام آئے یونہی اُن افراد کی اصلاح کرنا بھی ضروری ہے جو اپنی دینی وقومی موروثی خدمات کو فراموش کرکے عیش وعشرت میں ڈوبے ہوئے ہیں۔اگر ایسے حضرات اصلاح نہ قبول کریں تو ان کو تنبیہ کی جائے اس پر بھی بات نہ بنے تو ملکی قانون کاسہارا لے کر انہیں راہ راست پر لانے کی سعی بلیغ کی جائے۔
ھٰذا ماعندی والعلم عند اللہ العلیم الخبیر
خادم اہلسنت محمد علی قاضی مصباحی جمالی نوری ایم اے
مورخہ ۹ رجب المرجب ۱۴۴۱ھ مطابق 5 مارچ2020

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *