بسم اللہ الرحمن الرحیم
کیا فرماتے ہیں علمائے دین ومفتیان شرع متین اس مسئلے میں کہ مسجد کے اکاؤنٹ میں جمع شدہ رقم غریبوں میں تقسیم کرنا کیساہے۔مسجد کی دکان مکان کا کرایہ،جمعہ کا چندہ،ہفتہ واری چندہ،منگنی شادی کی رقم مسجد کی اکاؤنٹ میں جمع ہے۔مفتی صاحب سے گزارش ہے کہ محلے میں ایسے مستحقین ضعیف حضرات جو آج کل لاک ڈاؤن کی وجہ سے سخت پریشان ہیں،ان کی روزی روٹی بھی بند ہوچکی ہے۔توکیا مسجد کی موجودہ رقم ان محتاجوں میں خرچ کرنے کی اجازت ہے۔نیز مسجد کی رقم قرض کے طورپردینا کیسا ہے۔ازروئے شرع جو اب عنایت فرمائیں۔
سائلین! متولی واراکین جماعت قادریہ مسجد بنکاپور چوک ہبلی
مورخہ ۰۳ مارچ ۰۲۰۲
نوٹ! عالمی جان لیوا وبا کروناوائرس جس کی وجہ سے دنیا کے سارے ممالک لاک ڈاؤن ہیں،اس تحریر کے قلمبند کرنے تک دنیا میں
قریباً۰۴ ہزار اموات ہوچکی ہیں اور لاکھوں اس مرض سے متاثر ہیں اور ہمارا ملک بھارت(جہاں 22مارچ سے 14 اپریل2020 تک
ند ہے اور مرض کے روزبروز بڑھتے ہوئے پھیلاؤ کی وجہ سے خوف وخدشہ ہے کہ غیر معینہ مدت تک یہ لاک ڈاؤن طویل ہو) بھی اس کی زد میں آچکا ہے جہاں ۰۴ کے قریب جانیں تلف ہوئی ہیں اور زندگی گزشستہ چار ہفتوں سے معطل ہوچکی۔سارے کاروبار بند اور جملہ قومی وبین الاقوامی اسفار موقوف ہیں۔اِن حالات میں جناب مسکان کوسوگل رکن جماعت اور مولانا شاکر صاحب امام مسجد ملک وشہر میں لاک ڈاؤن کی وجہ سے بالمشافہ ملاقات کرنے سے قاصر تھے اس لئے فون اور واٹس اپ کے ذریعے سوال بھیج کر جو اب طلب کیا۔
الجواب! مسلمانوں پر لازم ہے کہ ہرممکن کوشش کریں کہ مال وقف کی حفا ظت ہواور وہ ظالم کے ظلم سے محفوظ رہے۔
مسجدکی جمع شدہ رقم مال وقف کہلاتی ہے جو مصارف مسجد کے لئے استعما ل کی جاتی ہے،جیسے مسجد کے خدام وعملے کی تنخواہ اور مسجد کی دیگر ضروریات جو مسجد کے حق میں ہوں جیسے بجلی،پانی،پنکھے اور صفائی،قالین وفرش وغیرہ تو مسجد کی ضرورت پر ضرورت کے مطابق وقف کا مال مصارف ِمسجد پرخرچ کرنا چاہئے۔لیکن اگر وقف کا مصرف معین ہو کہ صرف تعمیر میں خرچ کیا جائے یا کسی خاص مصرف میں لگایا جائے تو اُس مال کو اسی میں صرف کیا جائے گا۔ مسجد کی رقم جس مقصد کے لئے حاصل کی گئی اُسی مقصد میں اس کا استعمال ضروری ہے۔
مسجد کی دکان ومکان کا کرایہ مسجد کامال ہے،مسجد میں جمعہ کے موقعے پرجو چندہ کیاجاتا ہے اگروہ بھی مسجد کی ضرورتوں کے لئے ہے تو اسے بھی مسجد کے مصارف میں خرچ کیا جائے گا۔محلے میں ہفتہ واری گھروں سے حاصل کی گئی رقم اور شادی بیاہ کے حق باب کی رقم صرف مسجد کی
ضرورتوں کے لئے نہیں ہوتی ہے بلکہ محلے میں بسنے والے مسلمانوں کے فلاحی کاموں کے لئے بھی ہوتی ہے،جو محلے کے مصارف عامہ
ومصارف جاریہ ہیں مثلاًمسجد کمیٹی والے میلا دالنبی ﷺ کے جلسے منعقدکرتے ہیں،ماہ محرم الحرام میں سبیل لگاتے ہیں اور غریبوں کی شادی بیاہ کا انتظام کرتے ہیں اور غریب بچوں کی سنت ابراھیمی کا بھی اہتمام کرتے رہتے ہیں۔تو اس طرح کی جمع شدہ رقم کو ضرورت شدیدہ وشرعیہ پر بطور قرضہ حسنہ کسی ضرورتمند کو دینا جائز ہے۔چانچہ تفہیم المسائل جلد چہارم میں مفتی منیب الرحمن صاحب قبلہ کتبِ فقہ سے ایک عبارت نقل فرماتے ہیں فقیر مات فجمع من الناس الدراھم کفنوہ وفضل شئی ان عرف صاحبہ یرد علیہ والا یصرف الی کفن فقیرا ٓخر او یتصدق بہ یعنی فقیر فوت ہوا تو لوگوں نے چندہ جمع کرکے اس کو کفن دیا اور چندہ بچ گیا اگر اس زائد چندہ والا شخص معلوم ہو تو اسے واپس کیا جائے ورنہ اس کو کسی دوسرے فقیر کے کفن میں خرچ کیا جائے یا پھر صدقہ کردیا جائے۔اور
فتاویٰ بحرالعلوم میں ایک سوال ہے کہ کیا عیدگاہ کے فاضل چندہ سے مسجد کی تعمیر ہوسکتی ہے یانہیں؟اس کاجواب یوں ہے عیدگاہ کا فاضل پیسہ کسی دوسرے کار خیر میں لگانے سے پہلے چندہ دینے والوں کی رائے لینی ضرورہے وہ اگر مسجد کی تعمیر میں لگانے کے لئے راضی ہوں تو مسجد میں صرف کیا جائے کسی دوسرے مصرف خیر میں صرف کرنے کو کہیں تو اس میں لگایاجائے یا اس کو واپس لینا چاہیں تو واپس دیا جائے۔فتاویٰ رضویہ جلد ششم ص ۹۳۳میں ہے ایسے چندوں سے جو روپیہ فاضل بچے وہ چندہ دہندگان کا ہے انہیں کی طرف رجوع لازم ہے وہ جس امر کی اجازت دیں وہی لازم ہے وہ نہ ہوں تو ان کے بالغ وارثوں سے رجوع کیا جائے اگر چندہ دہندگان اور ان کے وارث نہ معلوم ہوں تو جس کام کے لئے دیا تھا اس میں صرف کرسکتے ہیں اور یہ بھی نہ بن پڑے تو ان کی طرف سے فقیروں پر صدقہ کردیں (فتاویٰ بحرالعلوم جلد اول)۔آپ کے سوال میں مسجد کے نام پر موجود بیت المال کی جمع شدہ رقم میں شادی بیاہ اور ماہانہ محلے میں رہنے والوں کے گھروں سے عطیہ کا ذکر بھی ہے۔ظاہر ہے کہ یہ رقم خاص مسجد کی نہ رہی بلکہ مصارف مسجد سے ہٹ کر دیگر اہل محلہ کے فلاحی کاموں کے لئے حاصل شدہ رقم ہوئی۔مسجد کی تعمیر کے لئے یا مسجد کے مصارف میں دی گئی رقم چھوڑکر دوسری رقم کو محلے کے نیک کاموں کے لئے خرچ کیا جاسکتا ہے۔ اب اس صورت میں قاضی شریعت یا شہر کے جیدعلمائے کرام کی سرپرستی میں مسجدومحلہ کمیٹی کے پرہیزگار و دیانتدار حضرات بطور قرضہ یا بطورہبہ وتصدُّق کے درپیش مشکل حالات کے مطابق مالی امداد کی جو جائز ومناسب صورت ہوسکتی ہے، محلہ کے مجبورو مضطرافراد کودیں۔ فرمانِ الٰہی ہے وَتَعَاوَنُوْا عَلَی الْبِرِّ وَالتَّقْویٰ (المائدہ ۵آیت ۲)ترجمہ! اور نیکی اور پرہیز گاری میں ایک دوسرے کی مدد کرو۔جہاں تک آپ کا یہ سوال کہ ملک میں کئی ہفتوں سے لاک ڈاؤن کی وجہ سے اہل محلہ میں سخت غریب ومحتاج مسلمانوں کی ضرورتوں کی تکمیل کی خاطر مسجد کی رقم ایسوں کو بطور قرض دینا کیسا ہے؟تو اس سلسلے میں شریعت کا حکم کیا ہے؟میں یہاں پر اسی طرح کی صورتحال پر کئے گئے سوال کے جواب میں دی گئی تحریر کا ایک حصہ نقل کردیتا ہوں جو ہم اور آپ سب کے لئے اس طرح کے سنگین حالات میں شرعی رہنمائی کرتی ہے۔
بحرالعلوم مفتی عبد المنان اعظمی علیہ الرحمہ لکھتے ہیں کہ ایک وقف کی فاضل آمدنی کسی دوسرے وقف کے مصرف میں صرف کرنا بھی حرام ہے تو اور مصارف میں صرف کرنے کا کیا سوال؟ دوآدمیوں نے الگ الگ دومسجدیں بنائیں یا ایک ہی آدمی نے مسجد او رمدرسہ علیحدہ علیحدہ بنایا تو
ایک وقف کی فاضل آمدنی دوسرے وقف میں لگاناجائز نہیں ہے۔ہاں بہارشریعت میں عالمگیری کے حوالے سے بیان کیا کہ مسلمانوں پر کوئی حادثہ آپڑا ہوجس میں روپیہ خرچ کرنے کی ضرورت ہومگر روپیہ کی کوئی سبیل نہیں ہواور مسجد کے اوقاف کا روپیہ جمع ہوتو بطور قرض مسجد سے رقم لی جاسکتی ہے (فتاویٰ بحرالعلوم جلد پنجم)۔
ھٰذا ماعندی والعلم عند اللہ العلیم الخبیر
خادم اہلسنت
(افضل العلماء مفتی) محمد علی قاضی،مصباحی، جمالی، نوری، ایم اے
مورخہ ۱۳ مارچ ۰۲۰۲